The hidden elements behind intolerance 02-03-2021

in Urdu Community4 years ago

IMG_20210302_162247.png

The hidden elements behind intolerance

Yes, tolerating intolerance means that we are allowing this disease to flourish. According to Carl Popper's research, in order for any society to maintain its tolerance, it must end its acceptance of intolerant behavior.

When a society begins to accept intolerant behavior, over time, that society loses its tolerance. For example, if you see a person with a car on the road who is beating a poor rickshaw puller badly, you will find out that the poor man's valuable vehicle has suffered minor damage due to the negligence of the rickshaw puller.
So we will easily accept the bad behavior of the car owner. According to Carl Popper, the philosophy of intolerance must be challenged by rational reasoning. If this is not enough, force should be used against it

This is the principle behind the rapidly declining tolerance in our society. On special occasions, both the killer and the shooter are mentally prepared. For example, if the child has not done his homework, he is mentally prepared that the teacher only has to hit and the teacher has no other punishment but to hit.
The most painful aspect of this whole situation is that we have mentally accepted this attitude. According to Carl Upper, this acceptance is actually the cause of the incurable disease.

The members of each society have different personalities. Some people are very emotional by nature and it is very difficult for them to control the emotions of anger that arise in any situation. On the contrary, there are personalities who are emotional even in the most difficult situation. Not from, but only from the brain.

When these two behaviors come face to face, it is quite possible that a person with negative emotions will eliminate the tolerance within a positive-minded person from his negative behavior, and as a result, the virus of intolerance will spread like a contagious disease. The other seems to embrace the whole of society.

This contagious disease has spread in Pakistani society to such an extent that you will see its symptoms. From television screens to real life scenes and from newspaper pages to electronic pages, you will be exposed to rude and arrogant conversations.

Hardly a day goes by when you don't see such an emotional demonstration while traveling on the road. Everyone will be busy trying to get ahead by keeping the traffic rules on the side and even if another vehicle is touched in this attempt, the two people will stop on the middle of the road and start burying civilization.

IMG_20201216_164541.jpg

IMG_20201216_164548.jpg

IMG_20201216_164607.jpg

جی ہاں عدم برداشت کو برداشت کرنے کا مطلب ہے کہ ہم اس بیماری کو پنپنے کا موقع دے رہے ہیں۔ کارل پوپر کی تحقیق کے مطابق کسی بھی معاشرے کو اپنی رواداری برقرار رکھنے کے لیے عدم برداشت کے رویے کی طرف اپنی قبولیت کو ختم کرنا ہوگا۔
جب ایک معاشرہ عدم برداشت کے رویے کو قبول کرنا شروع کر دیتا ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ اس معاشرے سے راواداری ختم ہو جاتی ہے۔ مثلا اگر آپ روڈ پر کسی کار والے شخص کو دیکھتے ہیں جو کہ ایک غریب رکشے والے کو بری طرح سے پیٹ رہا ہے تو معلوم کرنے پر پتہ چلے گا کہ اس بچارے کی قیمتی گاڑی کا رکشے والے کی کوتاہی سے معمولی سا نقصان ہوا ہے۔
لہذا ہم کار والے کا برا رویہ بہت آرام سے قبول کر لیں گے۔ کارل پوپر کے مطابق عدم برداشت کے فلسفے کا مقابلہ عقلی دلیل سے ہی کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ ناکافی ہو تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے۔
ہمارے معاشرے میں تیزی سے ختم ہوتی رواداری کے پیچھے دراصل یہی اصول کار فرما ہے۔ مخصوص مواقع پر مارنے والا اور پٹنے والا دونوں ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ مثلا اگر بچے نے ہوم ورک نہیں کیا ہے تو وہ ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے کہ ٹیچر نے صرف مارنا ہی ہے اور ٹیچر کے پاس بھی سوائے مارنے کے کوئی دوسری سزا نہیں ہوتی۔
اس ساری صورتحال کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے اس رویے کو ذہنی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ کارل اوپر کے نزدیک یہ قبولیت ہی دراصل اس بیماری کو لاعلاج کر دینے کا سبب ہے۔
ہر معاشرے میں بسنے والے ارکان الگ الگ شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔ بعض افراد فطرتا انتہائی جذباتی واقع ہوتے ہیں اور کسی بھی صورت حال میں اپنے اندر اٹھنے والے غصے کے جذبات کو قابو کرنا ان کے لیے انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے اس کے برعکس ایسی شخصیات بھی ہوتی ہیں جو کسی مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی جذبات سے نہیں بلکہ صرف اور صرف دماغ سے کام لیتی ہیں۔
جب یہ دونوں رویے آمنے سامنے آ جائیں تو عین ممکن ہے کہ منفی جذبات رکھنے والا شخص مثبت سوچ رکھنے والے انسان کے اندر موجود رواداری کو بھی اپنے منفی رویہ سے ختم کردے اور نتیجتا اس طرح عدم برداشت کا وائرس چھوت کی بیماری کی طرح ایک سے دوسرے کو لگتے لگتے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں چھوت کی یہ بیماری اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اس کی علامات آپ کو جا بجا نظر آئیں گی۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین سے لے کر اصل زندگی کے مناظر تک اور اخبارات کے صفحات سے لے کر برقی صفحات تک جابجا غیر شائستہ اور اکھڑ انداز گفتگو سے آپ کا واسطہ پڑے گا۔
شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو، جب آپ روڈ پر سفر کے دوران ایسا کوئی جذباتی مظاہرہ نہ دیکھیں۔ ہر شخص ٹریفک قوانین سائیڈ پر رکھ کر آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف نظر آئے گا اور اگر اس کوشش میں کوئی دوسری گاڑی چھو بھی جائے ، تو دونوں افراد بیچ سڑک پر رک کر تہذیب کا جنازہ نکالنا شروع کر دیں گے