جشن آزادی منانے کا ایک انداز یہ بھی ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔

in #life6 years ago

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ پاک کے بندو ں سے پیار کرتے ہیں ان کے دکھ درد کا خیال رکھتے ہیں بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے میں ان کے والدین کی دل کھول کر مدد کرتے ہیںمہمان کا اکرام کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی میں عبادات کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی خدمت بھی شامل ہوتی ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ غرباو مساکین کی زیادہ سے زیادہ دعائیں سمیٹتے رہیں دعا کی درخواست تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن اصل دعا وہی ہوتی ہے جو دل سے نکلتی ہے:

بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے،
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے!

ہمارے احباب میں ایسا ہی ایک اللہ کا بندہ موجود ہے جو ہر وقت دوستوں رشتہ داروں اور حاجت مندوں کی دعائیں سمیٹتا رہتا ہے۔ جب بھی اس سے ملاقات ہوتی ہے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ضرور ملتا ہے۔ وہ اپنی پٹاری سے ضرور کچھ نیا نکال کر ہمیں حیران کرتا رہتا ہے۔ سارا علم کتابوں میں تو نہیں ہوتا اچھے لوگوں کا مطالعہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔ بعض اوقات ایک چھوٹی سی مختصر ملاقات علم میں بے پناہ اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ گزشتہ سال اس سے ملاقات ہوئی تو پاکستان کے سترھویں جشن آزادی کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ ہم ان سے کہہ رہے تھے کہ اس مرتبہ جشن آزادی پر لوگوں میں بڑا غیر معمولی جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا ہے سب جشن آزادی کو بڑھ چڑھ کر منا رہے ہیں سکولوں اور کالجوں میں اس حوالے سے تقاریب کا اہتمام بھی کیا گیا۔ بچوں نے پاکستان کے جھنڈے والے ڈیزائن کے کپڑے بھی پہن رکھے تھے بڑی بڑی سرکاری عمارتوں پر چراغاں بھی کیا گیا تھا موٹر سائیکل سوار پاکستان کے جھنڈے لہراتے ہوئے بازاروں کی رونق بنے رہے لیکن کتنا اچھا ہوتا کہ وطن عزیز کے یوم آزادی پر خلوص دل سے کچھ عہد کیے جاتے !
دوسروں کی طرف انگلیاں تو ہر وقت اٹھتی رہتی ہیںاپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی زحمت گوارا کی جاتی۔ بہت سی معاشرتی برائیاں ہمارے لیے باعث شرم ہیں۔ رشوت خور رشوت لینے سے توبہ کر لیتے !
شیر فروش دودھ میں پانی ملانے سے سچی توبہ کر لیتا!
ذخیرہ اندوز اس گھنائونے جرم سے کنارہ کشی کا عہد کرلیتا۔
یہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے عہد کیے جاسکتے تھے۔ اگر اس طرح ہوتا تو یقینا ایک مثبت اور سچ مچ کی تبدیلی دیکھنے میں آسکتی تھی لیکن ہم لوگوں نے زبانی جمع خرچ کرکے یہ دن بھی گزار دیا۔
ہماری باتیں سن کر وہ بندہ خد ا ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ اس مرتبہ ہم میاں بیوی نے سوچا کہ جشن آزادی کوذرا مختلف انداز میں منانا چاہیے سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مرتبہ چاچا یونس پارک کی پشت پر موجود یتیم خانے کے بچوں کو کسی پارک کی سیر کروائی جائے۔ یہ بچے بھی باہر نکل کر دوسرے بچوں کے ساتھ جشن آزادی کی رونقوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ جب یتیم خانے کی انتظامیہ سے بات کی تو انہوں نے بڑی خوشی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ چلو اچھا ہوا کسی کو تو یہ خیال آیا کہ یہ یتیم بچے اور بچیاں بھی اللہ کی مخلوق ہیں تقریباً 100سے کچھ اوپر بچے اور بچیاں ان کے ساتھ تین نگران خواتین اور دو گارڈز تھے۔ دو چار ہماری خواتین بھی تھیں ان سب کو ایک بس میں بٹھا کر ڈیفنس پارک پہنچایا گیا میری شریک حیات کا کہنا ہے کہ جب بچے بس سے اتر کر ڈیفنس پارک میں داخل ہوئے تو ان کی کیفیت بالکل ان پرندوں جیسی تھی جنہیں پنجرے سے نکال کر کسی سرسبز و شاداب باغ کی کھلی فضائوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بچے خوبصورت رنگ برنگی ٹوپیاں پہنے ہاتھوں میں پاکستان کے چھو ٹے چھوٹے جھنڈے لہراتے چاروں طرف دوڑتے اچھل کود کرتے رہے۔ پارک کے بالمقابل میرے بھانجے کا خوبصورت بنگلہ ہے اس نے بچوں کی خاطر مدارت ٹھنڈے ٹھار جوس اور چپس کے پیکٹس سے کی۔ یقینا بچوں کی خوشی قابل دید تھی!سب بچے مل جل کر ملی نغمے الاپتے رہے۔
یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے ہاتھ کوئی خزانہ لگ گیا ہو!
رات کے کھانے کے لیے مشہور پشاوری چنا میوہ چاولوں کا بندوبست کیا گیا تھا جو انہوں نے بنگلے کے خوبصورت لان میں بیٹھ کر نوش جاں کیے۔ کھانے کے بعد بچوں کو واپس یتیم خانے پہنچا دیا گیا مجھے یقین ہے کہ بچے اس رات بڑی گہری نیند سوئے ہوں گے !
ہم نے بچوں کی تصاویر جب فیس بک پر دیکھیں تو ہماری آنکھیں بھی پرنم ہوگئیں۔ دل میں خیال آیا کہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے ہمارے ملک میں مخیر حضرات کی کمی نہیں ہے اگر اسی طرح دوسرے لوگ بھی ماں باپ سے محروم بچوں کے لیے سوچیں تو کتنی خوشیاں بانٹی جاسکتی ہیں۔ یہ دنیا اللہ کے نیک بندوں سے خالی نہیں ہے یقینا بہت سے لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہتے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ دنیا ان اچھے لوگوں کے دم قدم سے آباد ہے!
ایک بات سن کر دکھ ہوا کہ یتیم خانے کے بچوں کی اکثریت کا لباس موسم سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ انہوںنے سردیوں کے موٹے کپڑے پہن رکھے تھے جن کی وجہ سے ان بچوں کو گرمی دانوں نے پریشان کر رکھا تھا۔ اس حوالے سے ہمارے مہربان کا کہنا ہے کہ دوچار دنوں میں ان بچوں کے لیے گرمیوں کے ہلکے پھلکے لباس کا بندوبست کردیا جائے گا۔ لباس کے علاوہ ان بچوں کی اور بھی بہت سی ضرورتیں ہیں کتنا اچھا ہو اگر مخیر حضرات آگے بڑھ کر اپنے حصے کا حق ادا کریں۔

سوچیئے گا ضرور۔۔۔
اور آگاہ ضرور کیجیئے گا کہ کیا رائے ہے آپ سب کی؟
پر جواب دینے سے پہلے ہم سب خود کو آئینہ میں ضرور دیکھنا ہو گا۔
حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم – ، القرآن سورتہ توبہ، آیت 129
اللہ سبحان وتعالی ہم سب کو مندرجہ بالا باتیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ مثبت انداز میں سمجھنے، اس سے حاصل ہونے والے مثبت سبق پر صدق دل سے عمل کرنے کی اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں ہماری تمام دینی، سماجی و اخلاقی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کرنے کی ھمت، طاقت و توفیق عطا فرما ئے۔ آمین!

(تحریر – محترم تنویراحمد)

مندرجہ بالا تحریر سے آپ سب کس حد تک متفق ہیں یا ان میں کوئی کم بیشی باقی ہے تو اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کر کے میری اور سب کی رہنمائی کا ذریعہ بنئیے گا۔ کیونکہ ہر شخص/فرد/گروہ/مکتبہ فکر کا اپنا اپنا سوچ اور دیکھنے کا انداز ہوتا ہے اور اس لیے ہمیں اس سب کی سوچ و نظریہ کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی کسی بات/نکتہ کو قابل اصلاح پائیں تواُس شخص/فرد/گروہ/مکتبہ فکر یا ادارئے کی نشاندہی اور تصیح و تشریح کی طرف اُن کی توجہ اُس جانب ضرور مبذول کروائیں۔

نوٹ: لکھ دو کا اپنے تمام لکھنے والوں کے خیالات سے متفق ہونا قطعی ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی لکھ دو کے پلیٹ فارم پر لکھنا چاہتے ہیں تو اپنا پیغام بذریعہ تصویری، صوتی و بصری یا تحریری شکل میں بمعہ اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، لنکڈان، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ارسال کردیجیے۔