قحط سالی

in #qahat7 years ago

💚 قحط سالی 💚
( مدارسِ اسلامیہ کے تناظر میں)


1917-18 میں ایران میں قحط سالی نے قہر ڈھایا ۔پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر محمد غولی مجد نے اپنی کتاب " The Great Famine and Genocide in Persia "میں لکھا کہ اس قحط سالی نے 80 لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان، افراد کو موت کی آغوش میں سلا دیا ۔
چین میں 1959-1961 میں قحط سالی نے موت کا ننگا رقص کیا اور اس رقصِ بے ھنگام نے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی جانیں نگل لیں ۔
جنوبی ایشیا میں 1783-84 میں قحط سالی نے قہر برپایا اور نام پایا "چلیسا قحط سالی ".
اس نے ایک کروڑ دس لاکھ انسانوں کی جانیں لے لیں۔
1932-33 میں رشیا کو قحط سالی نے اپنی چپیٹ میں لیا اور تیس لاکھ سے اسی لاکھ لوگوں کو اپنی جانیں گنوانا پڑیں ۔
1769 سے 1773 تک بنگال میں قحط سالی کا وہ دورِ ہلاکت خیز رہا کہ جس میں بنگال کی کل آبادی کا ایک تہائی حصہ موت کے سمندر میں سما گیا ۔
1921 میں بھی رشیا نے قحط سالی کی ہلاکت آفرینی کا مشاھدہ کیا جو 50 لاکھ لوگوں کی موت پر منتج ہوئی ۔
1944-45 میں انڈونیشیا کے جاوا سٹیٹ میں جاپان کی کالی کرتوتوں کے نتیجے میں قحط سالی نے قیامت برپا کی اور 24 لاکھ افراد کی جانیں لے کر رخصت ہوئی ۔
1870-71 میں بھی ایران میں قحط سالی نے اپنا رنگ دکھایا اور 15 لاکھ 20 ہزار افراد کی جانیں نگل کر چلی گئی ۔
1601 سے 1603 تک قحط سالی نے رشیا میں سخت ٹھنڈ کی شکل میں نمودار ہو کر 20 لاکھ لوگوں کو موت کا نوالہ بنایا ۔
1869 میں راجپوتانہ ریاستوں کو قحط سالی نے اپنا نشانہ بنایا ۔اس وقت ان کی کل آبادی چار کروڑ 45 لاکھ تھی جس میں سے ایک تہائی آبادی فنا کے گھاٹ اتر گئی اور ان گنت لوگوں نے دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کر لی۔
تاریخ انسانی نے ان دس سب سے زیادہ ہلاکت خیز قحط سالیوں کے علاوہ بھی، بہت ساری ہلاکت آفریں اور رستخیز قحط سالیاں دیکھی ہیں اور ان کا جان لیوا درد سہا ہے اور سورہ الملک کی آیت نمبر 29 میں دیے گئے قرآنی چیلنج کا عینی نظارہ کیا ہے، تاہم اس عقابِ الہی کی شدت کا اندازہ کرنے کے لیے ان ہی کی مثال میرے خیال سے بہت کافی ہے ۔
عباسی دورِ اقتدار کے آخری حصے میں بھی ایک بار ایسا قحط اور ایسی بھکمری برپا ہوئی تھی کہ انسانوں کو اپنے ہی جیسے انسانوں کو ذبح کرکے ان کا گوشت تک کھانے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔موجودہ دور میں امتِ مسلمہ فقیر اور مسکین نہیں ہے ۔اس کے پاس پوری دنیا کی 46 فی صد دولت ہے ۔یہ اور بات کہ اس قدر دولت ہونے کے باوجود وہ دنیا کی اقتصادی طور پر، سب سے فقیر اور مسکین امت ہے ۔اس کی وجوھات کیا ہیں، اس مسئلے پر بات پھر کبھی ہوگی ۔سرِ دست ہم بات کریں گے امت مسلمہ میں در آئی علمی قحط سالی کی ۔وہ بھی ساینس اور ٹکنالوجی کے میدانوں کی قحط سالی کی نہیں کہ وہ تو جگ ظاہر ہے ، آج ہم بات کرنے جا رہے ہیں علم و معرفت کے آبشاروں کے سوکھ جانے کی ۔علامہ اقبال رحمہ اللہ کو بہت پہلے مدرسہ و خانقاہ سے نمناک ہو کر اٹھنا پڑا تھا ۔اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ان کے لیے محض نمناکی کافی نہیں ہوتی، ماتمی مجلسیں بھی انہیں منعقد کرنا پڑتیں اور جب وہ ان مجلسوں سے اٹھتے تو اپنے اشکوں کے سیلاب کا بھی انہیں نظارہ کرنا پڑتا ۔
جب انہیں یہ خبر ملتی کہ مدارس کے مہتممین کو عربی کی دوسری جماعت تک پڑھانے والے اساتذہ کی قحط سالی کا سامنا ہے تو ان کا "حتی ابتلت لحاہ " سے کام ہرگز نہیں چلتا ۔
اگر ان کو مارک زوکر برگ کے فیس بک کے ذریعے پتہ چلتا کہ جامعہ سلفیہ بنارس سے فضیلت کی ڈگری حاصل کرنے والے فاضل کو البستان الجمیل کو مضاف، مضاف الیہ کی ترکیب میں ڈھالنے کا یارا نہیں حاصل ہے تو ان کو کتنا نمناک ہونا پڑتا، یہ وہی جانتے ۔
اگر وہ کسی مدرسے میں متوسطہ ثانیہ تک پڑھانے کے لیے کسی عالم و فاضل کا انٹرویو لیتے اور از راہِ اندازہ کوشی پوچھتے کہ الحمد کون سا صیغہ ہے اور جواب ملتا کہ واحد متکلم کا صیغہ اور فعلتُ کے وزن پر ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جنابِ اقبال کو سر دھننے کے علاوہ کوئی چارہِ کار نہ ملتا ۔
پھر ایک عالم و فاضل جو بقولِ خویش مشکوۃ المصابیح کا درس دیتے ہیں، سے فون پر انٹرویو لیتے ہوے کہتے کہ جناب! ایک صاحب نے جو دار الحدیث اثریہ سے فارغ التحصیل ہیں، الحمد کو واحد متکلم کا صیغہ قرار دے کر فنِ صرف کی دنیا کو ایک نئی دریافت عطا کی ہے، کیا ان کی یہ دریافت صحیح ہے؟ اور کیا الحمد کے اسم ہونے یا بنا دیے جانے کی کوئی گنجائش ہے؟ اور پھر جواب آتا کہ ہاں انہوں نے بالکل درست کہا ہے اور جب لفظِ الحمد فعل ہے تو پھر اسے اسم قرار دینے یا بنا دیے جانے کی کوئی صورت کیسے بن سکتی ہے!!! تو میرا خیال ہے کہ حضرتِ اقبال آج ہی کسی یورپی ملک کی طرف ہجرت کر جاتے اور ایشیا کے کسی بھی ملک کو مرتے دم تک اپنی صورتِ زیبا ہر گز نہ دکھاتے ۔ہاں! ان کے انتقال کے بعد ہم ایشیا والے تمام تر قانونی چارہ جوئی کرکے ان کے لاشے کو اپنے یہاں ضرور لاتے اور آخری دیدار کے لیے ان کا چہرہ کھول دیتے اور کہتے رہتے کہ دیکھ لو! یہی ہیں جنہوں نے ہمیں کمتر سمجھ کر اپنا دیش تیاگ دیا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں کوچہِ یار میں مرنا بھی نصیب نہیں ہوا!!!!
آج بعدِ نماز مغرب چہل قدمی کے لیے گیا اور لوٹتے ہوے ایک طالبِ علم سے ملاقات کی ۔وہ اب کی بار جامعہ اسلامیہ سنابل میں ثانیہ متوسطہ میں بعد رمضان پڑھے گا ۔میں نے اس سے پوچھا کہ نحو و صرف کی کون کون سی کتابیں تم نے گزشتہ سال پڑھی ہیں؟ بتایا کہ امین الصرف اور امین النحو ۔اور انشا؟ کہا کہ امسال سے پڑھوں گا ۔میں نے پوچھا کہ اور نحو و صرف کی کون کون سی کتابیں اب کی بار کے نصابِ تعلیم میں ہیں؟ بتایا کہ امین الصیغہ اور ہدایۃ النحو ۔
یہ سن کر میں سوچنے لگا کہ جو لڑکا انشا میں صفر ہے، وہ ہدایۃ النحو کی عبارت سمجھے گا، ترجمہ سمجھے گا، قواعد سمجھے گا یا ان قواعد کو منطبق کرنا سیکھے گا؟ کیا کرے گا اور کیا چھوڑے گا ؟
میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ دوسری زبانوں کی گرائمر مادری زبان میں نہ پڑھا کر انہی زبانوں میں کیوں پڑھائی جاتی ہے ۔
اگر کوئی آپ سے آکر کہے کہ سر! مجھے ایک ایسی بیساکھی چاہیے جس کے سہارے میں عربی زبان کے راستے پر چل سکوں ۔تو آپ انہیں نحو سے بنی بیساکھی تھمائیں گے یا پھر بیساکھی کی پیمائش وغیرہ بتائیں گے؟ جو فن سالن میں نمک کی حیثیت رکھتا ہو، اسے اس کی اسی حیثیت میں رہنے دیں گے یا پھر نمک کا ہی سالن بنا کر دیں گے اور کہیں گے کہ کھاو اور لگاتار چھٹی جماعت تک کھاو؟ یقیناً ایسی بدہضمی ہوگی کہ مرتے دم تک نارمل نہیں ہوگی ۔
مدارس کے طرزِ تعلیم میں جو خرابیاں ان کے وجود کے دن سے ہی ہیں، انہوں نے اپنا کامل رنگ اب دکھا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عربی کی دوسری جماعت تک پڑھانے کے لیے بھی اساتذہ نہیں مل رہے ہیں اور اگر بہ مشکلِ تمام کوئی آتا بھی ہے تو الحمد کو واحد متکلم بتاتا ہے اور کوئی البستان الجمیل کی اضافی صورت بستان الجمیلِ کہتا ہے ۔
وقت آ گیا ہے کہ اہلِ مدارس دیر نہ کریں اور زبانوں یعنی عربی ،انگریزی ، ہندی اور اردو کے علاوہ تمام نصابی کتابیں مادری زبان میں تیار کروا کر طلبہ کو دیں ۔ذرا سوچیے کہ اگر ہدایۃ النحو کو اردو میں ترجمہ کرکے پڑھانا ہی ہے تو ہم اسی کا اردو ترجمہ پہلے ہی طلبہ کو کیوں نہیں دے دیتے؟
میں یہ نہیں کہتا کہ مدارس بانجھ ہو گئے ہیں ۔ان کی آغوش سے آج بھی اچھے اچھے علما و فضلا نکل رہے ہیں لیکن نظامِ مدارس کی خرابیوں کو دیکھ کر وہ ان میں تدریس کے لیے ڈر سے نہیں آتے اور رد عمل کے طور پر یا پھر مجبورا دوسرے مجالاتِ حیات میں اپنا کیریئر بنا رہے ہیں ۔
تلخ نوائی اور گستاخی معاف!!!
رہے نام اللہ کا