Dr. Rahat Indori

in #shayari4 years ago

انتہائی منفرد لب و لہجہ اور مضامین میں جدت و ندرت رچنے والے شاعر راحت اندوری صاحب کا یوم وفات..11 اگست 2020

نام راحت اللہ اور تخلص راحت ہے۔ یکم جنوری ۱۹۵۰ء کو اندور ، بھارت میں پید ا ہوئے ۔ انھیں کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’ دھوپ، دھوپ‘‘، ’’میرے بعد‘‘، ’’پانچواں درویش‘‘، ’’رت بدل گئی‘‘، ’’ناراض‘‘، ’’موجود‘‘۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:401
راحت صاحب کے یوم ولادت کے موقع پر ان کے کچھ منتخب و منفرد اشعار احباب کی خدمت میں پیش ہیں....

انتخاب و پیشکش....طارق اسلم

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہے
عمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے

اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے

ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو

بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

بیمار کو مرض کی دوا دینی چاہئے
میں پینا چاہتا ہوں پلا دینی چاہئے

خیال تھا کہ یہ پتھراؤ روک دیں چل کر
جو ہوش آیا تو دیکھا لہو لہو ہم تھے

دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے

روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے

سورج ستارے چاند مرے سات میں رہے
جب تک تمہارے ہات مرے ہات میں رہے

شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے

گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

مری خواہش ہے کہ آنگن میں نہ دیوار اٹھے
مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تو رکھ لے

مزہ چکھا کے ہی مانا ہوں میں بھی دنیا کو
سمجھ رہی تھی کہ ایسے ہی چھوڑ دوں گا اسے

میں آ کر دشمنوں میں بس گیا ہوں
یہاں ہمدرد ہیں دو چار میرے

میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی

میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کے فرہاد ہو گئے

میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہئے

نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا

وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خرید لے میرا
میں اس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا

کالج کے سب بچے چپ ہیں کاغذ کی اک ناؤ لیے
چاروں طرف دریا کی صورت پھیلی ہوئی بیکاری ہے

ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

یہ ہوائیں اڑ نہ جائیں لے کے کاغذ کا بدن
دوستو مجھ پر کوئی پتھر ذرا بھاری رکھو

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

ہاتھ خالی ہے تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی تو میری جان لٹاتے جاتے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

جنازے پہ میرے لکھ دینا یاروں
محبت کرنے والا جا رہا ہے

میں جب مروں تو الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا