Zia ul Qur'an ضیاء القرآن

in #ziaulquran7 years ago

سلسلہ درسِ ضیاءالقران
از حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری علیہ الرحمۃ
قسط 113 سورہ البقرة آیت نمبر 173
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (173)
ترجمہ:
اس نے حرام کیا ہے تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور بلند کیا گیا ہو جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیکن جو مجبور ہوجائے در آنحالیکہ وہ نہ سرکش ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (بقدر ضرورت کھا لینے میں ) کوئی گناہ نہیں۔ بےشک اللہ تو بہت گناہ بخشنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے
تفسیر:اس میں چار چیزوں کا ذکر ہے جو حرام ہیں (1) مردار۔ وہ جانور جسے شرعی طریقہ پر ذبح نہ کیا گیا ہو۔ اس کی کسی چیز کا استعمال درست نہیں۔ اور ابو بکر الجصاص نے تصریح کی ہے شکاری کتوں اور شکاری پرندوں کو کھلانا بھی منع ہے۔ ہاں چمڑا وباغت (رنگنے) کے بعد پاک ہوجاتا ہے۔ (2) خون جاری (3) خنزیر (4) ما اھل بہ لغیر اللہ ۔
میں نے اس کا ترجمہ کیا ہے ’’ اور وہ جانور جس پر بلند کیا گیا ہو ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام‘‘ میں نے اس ترجمہ میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے فارسی ترجمہ کا اتباع کیا ہے۔ قرآن کریم میں یہ آیت چار بار آئی ہے اور ہر جگہ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے یہی ترجمہ کیا ہے اور ما اھل کے لفظی ترجمہ میں ’’وقت ذبح ‘‘ کی قید کو ہمیشہ ملحوظ رکھا ہے۔ مثلاً آپ نے اس آیت کا ترجمہ
’’وٓانچہ آواز بلند کر دہ شوددر ذبح دے بغیر خدا ‘‘۔ کے الفاظ سے کیا ہے (فتح الرحمن)
اور تمام مفسرین کرام نے اس آیت کا یہی معنی بیان فرمایا ہے۔ میں امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں
’’ ولا خلاف بین المسلمین ان المراد بہ الذبیحۃ اذا اھل بھا لغیر اللہ عند الذبح ‘‘ یعنی سب مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اس سے مراد وہ ذبیحہ ہے جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے
(مزید تحقیق کے لئے ملاحظہ ہوں تفاسیر قرطبی، مظہری ، بیضاوی ، روح المعانی ابن کثیر وکبیر وغیرہا ) بعض لوگ ان چیزوں کو بھی حرام کہہ دیتے ہیں جن پر کسی ولی یا نبی کا نام لے دیا جائے خواہ ذبح کے وقت اللہ کے نام سے ہی ذبح کیا جائے کیونکہ اس طرح مشرکین کے مشرکانہ عمل سے تشبیہہ ہو جاتی ہے کیونکہ وہ بھی اپنے بتوں کے نام لے دیا کرتے تھے۔ لیکن اگر نظر انصاف سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کے اس عمل کو مشرکین کے عمل سے ظاہری یا باطنی، صوری یا معنوی کسی قسم کی بھی مشابہت نہیں۔ کفار جب ایسے جانوروں کو ذبح کرتے تھے تو اپنے بتوں کا نام لے کر ان کے گلے پر چھری پھیرتے وہ کہتے باسم اللات والعزی۔ لات اور عزی کے نام سے ہم ذبح کرتے ہیں۔ اور مسلمان ذبح کرنے وقت اللہ تعالیٰ کے نام کے سوا کسی کا نام لینا گوارا ہی نہیں کرتے۔ اس لئے ظاہری مشابہت نہ ہوئی۔ نیز کافر ان جانوروں کو ذبح کرتے تو ان بتوں کی عبادت کی نیت سے ان کی جان تلف کرتے، کسی کو ثواب پہنچانا مقصود نہ ہوتا۔ اور مسلمان کسی غیر خدا کی عبادت کی نیت سے یا کسی کی خاطر ان کی جان تلف نہیں کرتے بلکہ ان کی نیت یہی ہوتی ہے، کہ اس جانور کو اللہ کے نام سے ذبح کرنے کے بعد یا یہ کھانا پکانے کے بعد فقرا ء اور عام مسلمان کھائیں گے۔ اور اس کا جو ثواب ہوگا وہ فلاں صاحب کی روح کو پہنچے۔ واضح ہو گیا کہ مسلمانوں کے عمل اور مشرکین کے طریقہ میں زمین وآسمان سے بھی زیادہ فرق ہے۔ ہاں اگر کوئی ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام لے یا کسی غیر خدا کی عبادت کے لئے کسی جانور کی جان تلف کرے تو اس چیز کے حرام ہونے اور ایسا کرنے والے کے مشرک ومرتد ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اگر مقصد صرف ایصال ثواب ہو جیسے ہر کلمہ گو کا مقصد ہوا کرتا ہے تو اس کو طرح طرح کی تاویلات سے حرام کہنا اور مسلمانوں پر شرک کا فتویٰ دیتے چلے جانا کسی عالم کو زیب نہیں دیتا۔ مفصل بحث سورۃ النحل کی آیت 115 کے ضمن میں ملاحظہ فرمائیں۔
یعنی اگر کوئی شخص مجبور ہو جائے اور اس کی زندگی خطرے میں پڑ جائے تو ان حرام چیزون سے وہ بقدر ضرورت استعمال کر سکتا ہے۔
والسلام

30076537_196721287604445_2173634892116525056_n.jpg

30077567_2041398699431495_2157964407584325632_n.jpg

30086387_1801670233471792_3906292907698552832_n.jpg

30079415_720407685016349_1586548270463713280_n.jpg

30077697_793812507485009_7655329071072542720_n.jpg